Iztirab

Iztirab

جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں

جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں
ہم مگر سرحد ادراک کو چھو لیتے ہیں
مے میسر جو نہیں پیاس بجھانے کے لیے
ہم تو چلو میں اب اپنا ہی لہو لیتے ہیں
میری بیگانہ روی مجھ کو بچا لیتی ہے
انتقام اپنی طرف سے تو عدو لیتے ہیں
توڑ دیتے ہیں اسے کس لیے پھر اہل جنوں
مانگ کر خود ہی تو زنجیر گلو لیتے ہیں
صرف آنکھوں کی تسلی کے لیے ہے یہ سیر
رنگ لیتے ہیں نہ ہم پھول سے بو لیتے ہیں
ٹوٹ جائے نہ کسی زخم کا ٹانکا اے دوست
کام ہم ضبط سے ہنگام رفو لیتے ہیں
کیا منورؔ ابھی بالیدگی شوق کا ذکر
کس قدر وقت شجر بہر نمو لیتے ہیں

منور لکھنوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *