Iztirab

Iztirab

جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک

جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک 
کیوں چھیڑتی ہے تو مجھے نا آشنا سرک 
جیسے اندھیری رات میں بجلی چمک گئی 
اس رخ سے شب گئی جو وہ زلف دوتا سرک 
آثار مرگ مجھ میں ہویدا ہوئے مگر 
جب پاس سے گئے مرے سب آشنا سرک 
کہتا ہے وقت نزع مریض اس کا اس سے یوں 
لگنے دے میری آنکھ تو اس دم ذرا سرک 
میت سے میری گزرے ہے جس دم وہ بعد قتل 
لاشہ کہے ہے خون سے دامن بچا سرک 
پوروں پہ ڈورے باندھے ہیں اس پر شعور نے 
تا اس کے فندقوں کی نہ جاوے حنا سرک 
شب اختلاط سے وہ مرے کیا خفا ہوا 
حد سے گئی زیادہ جو انگشت پا سرک 
دھڑکے ہے بے طرح سے یہ پہلو میں رات دن 
ڈرتا ہوں زخم دل کی نہ جاوے دوا سرک 
کرنے دے میرے خون کو آرام خاک میں 
اے شور حشر اس کو ابھی مت جگا سرک 
یہ کیا غضب ہوا کہ نہ خنجر لگا نہ تیر 
پہلو سے آپھی آپ مرا دل گیا سرک 
خواب عدم سے میں ابھی چونکا ہوں دور ہو 
اے صبح غم نہ اپنا مجھے منہ دکھا سرک 
پیچھے مرے پڑا ہے تو کیوں گھر کی راہ لے 
رسوا کرے گا کیا مجھے بہر خدا سرک 
کیا بے حیا ہے جو نہیں ٹلتا تو مصحفیؔ 
سو بار میں نے تجھ کو دوانے کہا سرک 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *