Iztirab

Iztirab

جاويد سے

۱
غارت گر ديں ہے يہ زمانہ 
ہے اس کی نہاد کافرانہ 
دربار شہنشہی سے خوشتر 
مردان خدا کا آستانہ 
ليکن يہ دور ساحری ہے 
انداز ہيں سب کہ جادوانہ 
سرچشمہ زندگی ہوا خشک 
باقی ہے کہاں م ے شبانہ
خالی ان سے ہوا دبستاں 
تھی جن کی نگاہ تازيانہ 
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو 
ہے اس کا مذاق عارفانہ 
جوہر ميں ہو لاالہ تو کيا خوف 
تعليم ہو گو فرنگيانہ 
شاخ گل پر چہک وليکن 
کر اپنی خودی ميں آشيانہ
وہ بحر ہے آدمی کے جس کا 
ہر قطرہ ہے بحر بيکرانہ 
دہقان اگر نہ ہو تن آساں 
ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ 
غافل منشيں نہ وقت بازي ست 
.وقت ہنر است و کارسازی ست
۲
سينے ميں اگر نہ ہو دل گرم 
رہ جاتی ہے زندگی ميں خامی
نخچير اگر ہو زيرک و چست 
آتی نہيں کام کہنہ دامی
ہے آب حيات اسی جہاں ميں 
شرط اس کہ ليے ہے تشنہ کامی
غيرت ہے طريقت حقيقی
غيرت سے ہے فقر کی تمامی
اے جان پدر نہيں ہے ممکن 
شاہيں سے تدرو کی غلامی
ناياب نہيں متاع گفتار 
صد انوری و ہزار جامی
ہے ميری بساط کيا جہاں ميں 
بس ايک فغان زير بامی
اک صدق مقال ہے کے جس سے 
ميں چشم جہاں ميں ہوں گرامی
اللہ کی دين ہے جسے دے 
ميراث نہيں بلند نامی
اپنے نور نظر سے کيا خوب 
فرماتے ہيں حضرت نظامی
جاے کہ بزرگ بايدت بود 
.فرزندی من نداردت سود
۳
مومن پہ گراں ہيں يہ شب و روز 
دين و دولت  قمار بازی
ناپيد ہے بندہ عمل مست 
باقی ہے فقط نفس درازی
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر 
جس فقر کی اصل ہے حجازی
اس فقر سے آدمی ميں پيدا 
اللہ کی شان بے نيازی
کنجشک و حمام کہ ليے موت 
ہے اس کا مقام شاہبازی
روشن اس سے خرد کی آنکھيں 
بے سرمہ بوعلی و رازی
حاصل اس کا شکوہ محمود 
فطرت ميں اگر نہ ہو ايازی
تيری دنيا کا يہ سرافيل 
رکھتا نہيں ذوق نے نوازی
ہے اس کی نگاہ عالم آشوب 
درپردہ تمام کارسازی
يہ فقر غيور جس نے پايا 
بے تيغ و سناں ہے مرد غازی
مومن کی اسی ميں ہے اميری
.اللہ سے مانگ يہ فقيری

علامہ محمد اقبال 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *