Iztirab

Iztirab

جاں بھی پرسوز ہو انجام تمنا کیا ہے

جاں بھی پرسوز ہو انجام تمنا کیا ہے
کوئی بتلائے کہ جینے کا بہانا کیا ہے
میری آنکھوں میں نمی بھی ہو تو واللہ کیا ہے
کوئی بھی جس کو نہ دیکھے وہ تماشا کیا ہے
وہ نہ چاہیں تو مزہ چاہ میں پھر خاک ملے
ہم اگر چاہیں بھی بالفرض تو ہوتا کیا ہے
دل سلگتا ہے سلگتا رہے جلتا ہے جلے
ایسی باتوں سے بھلا عشق میں بنتا کیا ہے
ہم سے منسوب ہیں امید و تمنا و خیال
کوئی دیکھے تو ذرا آپ کا نقشا کیا ہے
عقل سمجھائے گی بہلائے گی پھسلائے گی
دل کی چھلنی سے مگر دیکھیے چھنتا کیا ہے
بے خبر کتنے تھے مسعودؔ رموز غم سے
میں جو رویا تو کہا درد سے روتا کیا ہے
مسعود حسین خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *