Iztirab

Iztirab

جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا

جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا 
اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا 
عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے 
یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا 
کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں 
کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا 
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے 
کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا 
ملتا ہے کبھی بوسہ نے گالی ہی پاتے ہیں 
مدت ہوئی کچھ ہم کو انعام نہیں ہوتا 
ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے 
لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا 
کیوں تیرگیٔ طالع کچھ تو بھی نہیں کرتی 
یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا 
پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے 
وہ آہوئے رم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا 
نے عشق کے قابل ہیں نے زہد کے درخور ہیں 
اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *