Iztirab

Iztirab

جدائی

شجر حجر پہ ہیں غم کی گھٹائیں چھائی ہوئی 
سبک خرام ہواؤں کو نیند آئی ہوئی 
رگیں زمیں کے مناظر کی پڑ چلیں ڈھیلی 
یہ خستہ حالی یہ درماندگی یہ سناٹا 
فضائے نیم شبی بھی ہے سنسنائی ہوئی 
دھواں دھواں سے مناظر ہیں شبنمستاں کے 
سیارہ رات کی زلفیں ہیں رسمسائی ہوئی 
یہ رنگ تاروں بھری رات کے تنفس کا 
کہ بوئے درد میں ہر سانس ہے بسائی ہوئی 
خنک اداس فضاؤں کی آنکھوں میں آنسو 
ترے فراق کی یہ ٹیس ہے اٹھائی ہوئی 
سکوت نیم شبی گہرا ہوتا جاتا ہے 
رگیں ہیں سینۂ ہستی کی تلملائی ہوئی 
ہے آج ساز نوا ہائے خونچکاں اے دوست 
حیات تیری جدائی کی چوٹ کھائی ہوئی 
مری ان آنکھوں سے اب نیند پردہ کرتی ہے 
جو تیرے پنجۂ رنگیں کی تھیں جگائی ہوئی 
سرشک پالے ہوئے تیرے نرم دامن کے 
نشاط تیرے تبسم سے جگمگائی ہوئی 
لٹک وہ گیسوؤں کی جیسے پیچ و تاب کمند 
لچک بھوؤں کی وہ جیسے کماں جھکائی ہوئی 
سحر کا جیسے تبسم دمک وہ ماتھے کی 
کرن سہاگ کی بندی کی لہلہائی ہوئی 
وہ انکھڑیوں کا فسوں روپ کی وہ دیوئیت 
وہ سینہ روح نمو جس میں کنمنائی ہوئی 
وہ سیج سانس کی خوشبو کو جس پہ نیند آئے 
وہ قد گلاب کی اک شاخ لہلہائی ہوئی 
وہ جھلملاتے ستارے ترے پسینے کے 
جبین شام جوانی تھی جگمگائی ہوئی 
ہو جیسے بت کدہ آذر کا بول اٹھنے کو 
وہ کوئی بات سی گویا لبوں تک آئی ہوئی 
وہ دھج وہ دلبری وہ کام روپ آنکھوں کا 
سجل اداؤں میں وہ راگنی رچائی ہوئی 
ہو خواب گاہ میں شعلوں کی کروٹیں دم صبح 
وہ بھیرویں تری بیداریوں کی گائی ہوئی 
وہ مسکراتی ہوئی لطف دید کی صبحیں 
تری نظر کی شعاعوں کی گدگدائی ہوئی 
لگی جو تیرے تصور کے نرم شعلوں سے 
حیات عشق سے اس آنچ کی تپائی ہوئی 
ہنوز وقت کے کانوں میں چہچہاہٹ ہے 
وہ چاپ تیرے قدم کی سنی سنائی ہوئی 
ہنوز سینۂ ماضی میں جگمگاہٹ ہے 
دمکتے روپ کی دیپاولی جلائی ہوئی 
لہو میں ڈوبی امنگوں کی موت روک ذرا 
حریم دل میں چلی آتی ہے ڈھٹائی ہوئی 
رہے گی یاد جواں بیوگی محبت کی 
سہاگ رات کی وہ چوڑیاں بڑھائی ہوئی 
یہ میری پہلی محبت نہ تھی مگر اے دوست 
ابھر گئی ہیں وہ چوٹیں دبی دبائی ہوئی 
سپردگی و خلوص نہاں کے پردے میں 
جو تیری نرم نگاہی کی تھیں بٹھائی ہوئی 
اٹھا چکا ہوں میں پہلے بھی ہجر کے صدمے 
وہ سانس دکھتی ہوئی آنکھ ڈبڈبائی ہوئی 
یہ حادثہ ہے عجب تجھ کو پا کے کھو دینا 
یہ سانحہ ہے غضب تیری یاد آئی ہوئی 
عجیب درد سے کوئی پکارتا ہے تجھے 
گلا رندھا ہوا آواز تھر تھرائی ہوئی 
کہاں ہے آج تو اے رنگ و نور کی دیوی 
اندھیری ہے مری دنیا لٹی لٹائی ہوئی 
پہنچ سکے گی بھی تجھ تک مری نوائے فراق 
جو کائنات کے اشکوں میں ہے نہائی ہوئی 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *