Iztirab

Iztirab

جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے

جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے 
کیا جانے یہ کس کا مجھ کو غم ہے 
جاوے تو کنشت دل میں ہو کر 
تو کعبے کی راہ دو قدم ہے 
دیکھے ہے وہ دھکدھکی میں جب سے 
تب سے مرا دھکدھکے میں دم ہے 
تصویر تو اس کی زلف کی دیکھ 
نقاش یہ چین کا قلم ہے 
گر دیدۂ غور سے تو دیکھے 
ہستی جسے کہتے ہیں عدم ہے 
اتنے جو ہوئے ہیں ہم بد احوال 
یہ حضرت عشق کا کرم ہے 
ہر چند اس کی ہے ہر ادا شوخ 
منظور اپنا جو اک صنم ہے 
پر دانتوں تلے زباں دبانا 
بیداد ہے قہر ہے ستم ہے 
سمجھو نہ فقیر مصحفیؔ کو 
یہ وقت کا اپنے محتشم ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *