Iztirab

Iztirab

جمال

کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں
کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں
تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے
ترے جمال میں موجیں ہیں اس کے دریا میں
یہ ہو رہا ہے گماں تیرے جسم خوبی پر
بھٹک کے حور چلی آئی ہو نہ دنیا میں
نظر سے کچلے ہوئے موتیوں کی جھلکاریں
لبوں پہ رنگ جو ملتا ہے جام و مینا میں
وہ مسکراتے سے آنکھوں میں بے شمار کنول
وہ کسمساتی ادائیں تمام اعضا میں
نپا تلا سا تبسم جچی ہوئی سی نظر
سنی سنی سی وہ پلکیں غبار سرما میں
وہ نرم نیما سے کندن بدن کی رنگ ترنگ
بنی ہوئی سی وہ کرنیں لباس زیبا میں
جو گوشے گوشے میں پنہاں ہے اس کے راہ گریز
خیال گم ہوا جاتا ہے قد رعنا میں
قدم قدم پہ وہی تمکنت کا ایک سوال
ہے کوئی دوسرا ہم سا سواد گنگا میں
بتا میں تجھ سے کہوں کیا بجز وہ شوق کی بات
کہ ڈال رکھا ہے جس کو جواز معنی میں
جمال یار لطیف آرزو ہے اس سے لطیف
یہ آئی ہے نہ وہ آئے گا حرف سادہ میں
مسعود حسین خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *