Iztirab

Iztirab

جمال

کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں
کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں
تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے
ترے جمال سے موجیں ہیں دل کے دریا میں
یہ ہو رہا ہے گماں تیرے جسم خوبی پر
بھٹک کے حور چلی آئی ہو نہ دنیا میں
نظر میں کچلے ہوئے موتیوں کی جھلکاریں
لبوں پہ رنگ جو ملتا ہے جام و مینا میں
وہ مسکراتے سے آنکھوں میں بے شمار کنول
وہ کسمساتی ادائیں تمام اعضا میں
جو گوشے گوشے میں پنہاں ہے اس کی راہ گریز
خیال گم ہوا جاتا ہے قد رعنا میں
جمال یار لطیف آرزو ہے اس سے لطیف
یہ آئی ہے نہ وہ آئے گا حرف سادہ میں
مسعود حسین خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *