Iztirab

Iztirab

جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے

جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے 
ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے 
ایسا شکوہ اس کی صورت میں ہے کہ ناگہ 
آوے جو سامنے سے دست مجال باندھے 
آنکھوں سے گر کرے وہ زلفوں کو ٹک اشارہ 
آویں چلے ہزاروں وحشی غزال باندھے 
عیسیٰ و خضر تک بھی پہنچے اجل کا مژدہ 
تو تیغ اگر کمر پر بہر قتال باندھے 
لالے کی شاخ ہرگز لہکے نہ پھر چمن میں 
گر سر پہ سرخ چیرا وہ نونہال باندھے 
لت عاشقی کی کوئی جائے ہے عاشقوں سے 
گو بادشاہ ڈانڈے گو کوتوال باندھے 
ہم کس طرح سے دیکھیں جب دے دے پیچ لڑ کے 
چیرے کے پیچوں میں تو زلفوں کے بال باندھے 
بندہ ہوں میں تو اس کی آنکھوں کی ساحری کا 
تار نظر سے جس نے صاحب کمال باندھے 
ہم ایک بوسے کے بھی ممنوں نہیں کسی کے 
چاہے سو کوئی تہمت روز وصال باندھے 
سوز دل اپنا اس کو کیا مصحفیؔ سناویں 
آگو ہی وہ پھرے ہے کانوں سے شال باندھے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *