Iztirab

Iztirab

جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو

جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو 
ہوس نے عشق کو گھیرا ہے دیکھیے کیا ہو 
گئی بہار مگر آج بھی بہار کی یاد 
دل حزیں کا سہارا ہے دیکھیے کیا ہو 
خموش شمع محبت ہے پھر بھی حسن کی ضو 
گلوں سے تا بہ ثریا ہے دیکھیے کیا ہو 
شب فراق کی بڑھتی ہوئی سیاہی میں 
خدا کو میں نے پکارا ہے دیکھیے کیا ہو 
وہی جفاؤں کا عالم وہی ہے مشق ستم 
وہی وفا کا تقاضا ہے دیکھیے کیا ہو 
غم بتاں میں کٹی عمر اور اب دل کو 
شکایت غم دنیا ہے دیکھیے کیا ہو 
ہزار بار ہی دیکھا ہے سوچنے کا مآل 
ہزار بار ہی سوچا ہے دیکھیے کیا ہو 
مرا شباب ترا حسن اور سایۂ ابر 
شراب‌ و شعر مہیا ہے دیکھیے کیا ہو 
ضیاؔ جو پی کے نہ بہکا وہ رند مستی کوش 
پئے بغیر بہکتا ہے دیکھیے کیا ہو 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *