جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں دیکھ اس کو میرے تھرائے پاؤں خط کا لایا نہ ادھر سے وُہ جواب یُوں ہی قاصد کہ میں تھکوائے پاؤں بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں ہاتھ سے یار کا دامن دے کر ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں نجد کا دیکھ کہ صحرائے وسیع آتے ہی قیس نے پھیلائے پاؤں خوش خرامی ہے صنم تُجھ پر ختم کبک و طوطی نے یہ کب پائے پاؤں تُو تُو سوتا رہا عاشق نے تیرے رات بھر آنکھوں سے سہلائے پاؤں مُجھ مسافر کہ کسی نے ہرگز گرم پانی سے نہ دھلوائے پاؤں مصحفیؔ ہم کو طرب سے کیا کام بیٹھے ہیں گور میں لٹکائے پاؤں
غلام ہمدانی مصحفی