Iztirab

Iztirab

جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں

جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں 
دیکھ اس کو میرے تھرائے پاؤں 
خط کا لایا نہ ادھر سے وُہ جواب 
یُوں ہی قاصد کہ میں تھکوائے پاؤں 
بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد 
اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں 
ہاتھ سے یار کا دامن دے کر 
ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں 
نجد کا دیکھ کہ صحرائے وسیع 
آتے ہی قیس نے پھیلائے پاؤں 
خوش خرامی ہے صنم  تُجھ پر ختم 
کبک و طوطی نے یہ کب پائے پاؤں 
تُو تُو سوتا رہا عاشق نے تیرے 
رات بھر آنکھوں سے سہلائے پاؤں 
مُجھ مسافر کہ کسی نے ہرگز 
گرم پانی سے نہ دھلوائے پاؤں 
مصحفیؔ ہم کو طرب سے کیا کام 
بیٹھے ہیں گور میں لٹکائے پاؤں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *