Iztirab

Iztirab

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے 
یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے 
رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی 
نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے 
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا 
مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے 
کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی 
اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے 
ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا 
جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے 
ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی 
نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے 
جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی 
وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے 
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ 
ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے 

ن م راشد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *