Iztirab

Iztirab

جو جلوہ گاہ یار ہے وہ دل یہی تو ہے

جو جلوہ گاہ یار ہے وہ دل یہی تو ہے 
ہم جس جگہ ہیں حسن کی منزل یہی تو ہے 
خود کو نہ دیکھنا ہے تجھے دیکھنے کی شرط 
جو درمیاں حجاب ہے حائل یہی تو ہے 
ہر ذرہ دل فریب ہے ہر جلوہ جاں نواز 
ہر گام پر گماں ہے یہ منزل یہی تو ہے 
ہلکی سی ایک موج تبسم میں بہہ گیا 
جو بحر بے کنار تھا وہ دل یہی تو ہے 
اب ہر ادائے حسن پہ ہوتا ہے یہ گماں 
جو لوٹ لے گئی ہے مرا دل یہی تو ہے 
دل مجھ سے کہہ رہا ہے ترے دل کی بات بھی 
آئینہ آئینے کے مقابل یہی تو ہے 
دونوں جہاں کو تیری محبت میں بھولنا 
اک بات یاد رکھنے کے قابل یہی تو ہے 
اے دوستو ذہینؔ کو پہچانتا ہوں میں 
سب سے الگ جو سب میں ہے شامل یہی تو ہے 

ذہین شاہ تاجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *