Iztirab

Iztirab

جو دل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی

جو دل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی 
یہ موج تو تہ دریا کبھی رہی بھی نہ تھی 
جھکیں جو سوچتی پلکیں تو میری دنیا کو 
ڈبو گئی وہ ندی جو ابھی بہی بھی نہ تھی 
سرک گیا کوئی سایا سمٹ گیا کوئی دور 
کسی کے عکس کی پیاسی کشش سہی بھی نہ تھی 
سنی جو بات کوئی ان سنی تو یاد آیا 
وہ دل کہ جس کی کہانی کبھی کہی بھی نہ تھی 
نگر نگر وہی آنکھیں پس زماں پس در 
مری خطا کی سزا عمر گمرہی بھی نہ تھی 
کسی کی روح تک اک فاصلہ خیال کا تھا 
کبھی کبھی تو یہ دوری رہی سہی بھی نہ تھی 
نشے کی رو میں یہ جھلکا ہے کیوں نشے کا شعور 
اس آگ میں تو کوئی آب آگہی بھی نہ تھی 
غموں کی راکھ سے امجدؔ وہ غم طلوع ہوئے 
جنہیں نصیب اک آہ سحر‌ گہی بھی نہ تھی 

مجید امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *