Iztirab

Iztirab

جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے

جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون ستمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تو کیسا مسیحا ہے کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
شعلہ سا طواف در و دیوار کرے ہے
کیا دل کا بھروسہ ہے یہ سنبھلے کہ نہ سنبھلے
کیوں خود کو پریشاں مرا غم خوار کرے ہے
ہے ترک تعلق ہی مداوائے غم جاں
پر ترکِ تعلق تو بہت خوار کرے ہے
اس شہر میں ہو جنبشِ لب کا کسے یارا
یاں جنبش مژگاں بھی گنہگار کرے ہے
تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
.یہ چپ تو ترے کرب کا اظہار کرے ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *