Iztirab

Iztirab

جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے

جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے 
گزر گئی ہے محبت حسین راہوں سے 
چراغ جل کے اگر بجھ گیا تو کیا ہوگا 
مجھے نہ دیکھ محبت بھری نگاہوں سے 
بلا کشوں کی اندھیری گلی کو کیا جانے 
وہ زندگی جو گزرتی ہے شاہراہوں سے 
لبوں پہ مہر خموشی لگائی جائے گی 
دلوں کی بات کہی جائے گی نگاہوں سے 
ادھر کہا کہ نہ چھوٹے ثواب کا جادہ 
ادھر سجا بھی دیا راہ کو گناہوں سے 
فضائے مے کدۂ دل کشا میں آئی ہے 
حیات گھٹ کے جو نکلی ہے خانقاہوں سے 
مری نظر کا تقاضا کچھ اور تھا اے دوست 
ملا نہ کچھ مہ و انجم کی جلوہ گاہوں سے 
خزاں کی وادئ غربت گزار لیں تو شمیمؔ 
ملیں دیار بہاراں کے کج کلاہوں سے 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *