جو نہ ہو درد آشنا وہ سر خوشی کس کام کی
شاعری تمثیل یا صورت گری کس کام کی
غم جو اوروں کا ہو اپنا غم سمجھ کر لیجئے
ورنہ دل کا سوز آنکھوں کی نمی کس کام کی
ایک جیسے ہوں اگر سنگ و ثمر کیا دیکھنا
صحن یخ بستہ میں کوئی روشنی کس کام کی
خاکدان تیرہ میں اک عالم روشن بھی ہے
بے جنوں بھی یہ منور آگہی کس کام کی
وہ تو اک سیلاب تھا سب کچھ بہا کر لے گیا
نام کی تختی سر دیوار تھی کس کام کی
رنج حرف ناشنیدہ آسماں نا آشنا
اے ہوائے درد آشفتہ سری کس کام کی
ارتباط چشم و لب کا بھی کوئی ساماں تو ہو
ورنہ اس خال سیہ کی دل کشی کس کام کی
سید امین اشرف