جو پا کر بھی کچھ نہیں کھوتے وہ روتے ہیں اس دنیا میں آنسو ہوں دامن پہ کسی کے ہم دھوتے ہیں اس دنیا میں اندھوں کی بستی میں کب سے آئینے میں بیچ رہا ہوں مجھ جیسے بھی عقل کے اندھے کم ہوتے ہیں اس دنیا میں خواب اگر جھوٹے ہوں بھی تو تعبیریں سچی ہوتی ہیں میری نیند اڑانے والے کب سوتے ہیں اس دنیا میں جب وہ ملے تھے زخم ہنسے تھے پات ہرے تھے پھول کھلے تھے کتنی رتیں آئیں بھی گئیں بھی ہم روتے ہیں اس دنیا میں کانٹوں کی برساتیں پا کر ہم نے تو گل بانٹے لیکن فصل خوشی کی کاٹنے والے غم بوتے ہیں اس دنیا میں صدیوں کی تہذیب کے خالق قبریں اپنی چھوڑ گئے ہیں اور ان قبروں کی مٹی کو ہم ڈھوتے ہیں اس دنیا میں
سلیمان اریب