Iztirab

Iztirab

جُو دِن تھا ایک مصیبت تُو رات بھاری تھی

جُو دِن تھا ایک مصیبت تُو رات بھاری تھی 
گزارنی تھی مگر زندگی گزاری تھی 
سواد شُوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے 
نہ مُجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی 
لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی 
نہ پُوچھ کس طرح تصویر وُہ اتاری تھی 
جُو پیار ہم نے کیا تھا وُہ کاروبار نہ تھا 
نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ میں نے ہاری تھی 
طواف کرتے تھے اس کا بہار کہ منظر 
جُو دِل کی سیج پہ اتری عجب سواری تھی 
تمہارا آنا بھی اچھا نہیں لگا مُجھ کو 
فسردگی سی عجب آج دِل پہ طاری تھی 
کسی بھی ظلم پہ کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا 
نہ جانے کون سی جاں تھی جُو اتنی پیاری تھی 
ہجوم بڑھتا چلا جاتا تھا سر محفل 
بڑے رسان سے قاتِل کی مشق جاری تھی 
تماشا دیکھنے والوں کو کُون بتلاتا 
کے اس کے بعد انہی میں کسی کی باری تھی 
وُہ اس طرح تھا میرے بازوؤں کہ حلقے میں 
.نہ دِل کو چین تھا امجدؔ نہ بے قراری تھی 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *