Iztirab

Iztirab

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں 
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں 
بہ حال گمرہی پایا گیا ہوں 
حرم سے دیر میں لایا گیا ہوں 
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی 
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں 
برنگ لالۂ ویرانہ بے کار 
کھلایا اور مرجھایا گیا ہوں 
اگرچہ ابر گوہر بار ہوں میں 
مگر آنکھوں سے برسایا گیا ہوں 
سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو 
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں 
فرشتے کو نہ میں شیطان سمجھا 
نتیجہ یہ کہ بہکایا گیا ہوں 
کوئی صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں 
نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں 
بقول برہمن قہر خدا ہوں 
بتوں کے حسن پر ڈھایا گیا ہوں 
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے 
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں 
حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے 
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *