Iztirab

Iztirab

جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی

جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی 
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی 
گیسوئے عکس شب فرقت پریشاں اب بھی ہے 
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی 
انتظار منزل موہوم کا حاصل یہ ہے 
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی 
سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحل امید پر 
جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی 
درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف 
اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی 
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے 
ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *