Iztirab

Iztirab

جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں

جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں 
سورج کو غروب سے بچاؤں 
بس میرا چلے جو گردشوں پر 
دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں 
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو 
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں 
امکان پہ اس قدر یقیں ہے 
صحراؤں میں بیج ڈال آؤں 
میں شب کے مسافروں کی خاطر 
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں 
اشعار ہیں میرے استعارے 
آؤ تمہیں آئنہ دکھاؤں 
یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں 
ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں 
آواز جو دوں کسی کے در پر 
اندر سے بھی خود نکل کے آؤں 
اے چارہ گران عصر حاضر 
فولاد کا دل کہاں سے لاؤں 
ہر رات دعا کروں سحر کی 
ہر صبح نیا فریب کھاؤں 
ہر جبر پہ صبر کر رہا ہوں 
اس طرح کہیں اجڑ نہ جاؤں 
رونا بھی تو طرز گفتگو ہے 
آنکھیں جو رکیں تو لب ہلاؤں 
خود کو تو ندیمؔ آزمایا 
اب مر کے خدا کو آزماؤں 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *