Iztirab

Iztirab

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا 
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا 
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا 
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا 
سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے 
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا 
اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا 
اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا 
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی 
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا 
حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی 
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا 
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ 
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا 
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے 
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا 
قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر 
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *