Iztirab

Iztirab

حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی

حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی پا بہ جولانی نہیں جاتی
لب خاموش ساحل سے سکوں کا درس ملتا ہے
مگر امواج دریا کی پریشانی نہیں جاتی
جہاں پہلے کبھی سب گوش بر آواز رہتے تھے
وہاں بھی اب مری آواز پہچانی نہیں جاتی
حقیقت کچھ تو اپنی آبرو کا پاس ہو تجھ کو
ہزاروں پیرہن ہیں پھر بھی عریانی نہیں جاتی
نہیں تعظیم کے لائق نہیں تکریم کے قابل
وہ در جس کی طرف خود کھنچ کے پیشانی نہیں جاتی
سکوں ہوتا تو ہے پھر بھی سکوں حاصل نہیں ہوتا
کہ جانے کی طرح اپنی پریشانی نہیں جاتی

منور لکھنوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *