Iztirab

Iztirab

حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے

حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کس قاتل کا نام لکھا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
خون سے جلتا ایک دیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
آج بھی کتنی گرم ہوا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید
کہنے کو اک سناٹا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
سہما سہما کھویا کھویا کب سے بیٹھا سوچا رہا ہوں
کس نے مجھ کو قید کیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
سب جانے پہچانے چہرے میں بھی تو بھی یہ بھی وہ بھی
لاشوں کا اک شہر بسا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
لفظوں کی دیوار کے آگے عکس ابھر آیا ہے کس کا
خنجر لے کر کون کھڑا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
روح غزل پر تنہائی میں جانے کتنے وار ہوئے ہیں
مصرع مصرع تھراتا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کنول ضیائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *