Iztirab

Iztirab

حسن کوزہ گر۲

اے جہاں زاد
نشاط اس شب بے راہ روی کی 
میں کہاں تک بھولوں
زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی 
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا 
تجھے حیرت نہ ہوئی
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر 
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت 
تجھے حیرت نہ ہوئی
اے جہاں زاد
میں کوزوں کی طرف اپنے تغاروں کی طرف 
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں 
تو میں سوچتا ہوں 
سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی 
سر بازار دریچے میں سر بستر سنجاب کبھی 
تو مرے سامنے آئینہ رہی 
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے 
اپنی ہی صورت کے سوا 
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا
لکھ رہا ہوں تجھے خط 
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے 
اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں 
اب ایک ہی صورت کے سوا
لکھ رہا ہوں تجھے خط 
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے 
خط کیوں نہ لکھوں
اے جہاں زاد
نشاط اس شب بے راہ روی کی 
مجھے پھر لائے گی
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے
وقت اک ایسا پتنگا ہے 
جو دیواروں پہ آئینوں پہ 
پیمانوں پہ شیشوں پہ 
مرے جام و سبو میرے تغاروں پہ 
سدا رینگتا ہے 

رینگتے وقت کے مانند کبھی 
لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد 
تو میں سوچتا ہوں
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی 
جسے تنتی چلی جاتی ہے وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی
یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں 
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی 
بس ایک نشانی ہے یہی 
ان کے فن ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی 
میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت 
آ کے مجھے دیکھتی ہے 

دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے 
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں 
کھیل اک سادہ محبت کا 
شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں 
کبھی رو لیتے ہیں مل کر کبھی گا لیتے ہیں 
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں 
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں 
حرف سرحد ہیں جہاں زاد معانی سرحد 
عشق سرحد ہے جوانی سرحد 
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں 
درد محرومی کی 
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں

میرے اس جھونپڑے میں 
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں 
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں 
اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں 
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے 
میرے افلاس کی تنہائی کی 
یادوں کی تمناؤں کی خوشبوئیں بھی 
پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں 
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے گندہ ہے پراگندہ ہے 
ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے 
کبھی انجیروں کے زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے 
تو میں جی اٹھتا ہوں 
تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا
ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں عطر نہیں ہے 
کوئی پنکھا بھی نہیں
تجھے جس عشق کی خو ہے 
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں

تو ہنسے گی اے جہاں زاد عجب بات 
کہ جذبات کا حاتم بھی میں 
اور اشیا کا پرستار بھی میں 
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے 
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا
اے جہاں زاد 
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا 
اس کا نہیں کوئی جواب 
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے

اے جہاں زاد 
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی 
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں 
کے کنارے گونجی 
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا 
صدیوں کا کنارا نکلا 
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے 
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے 
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے 
یہ سمندر جو ہر اک فن کا 
ہر اک فن کے پرستار کا 
آئینہ ہے 

ن         م         راشد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *