Iztirab

Iztirab

حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے

حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے 
کائنات رقصاں ہے زندگی غزل خواں ہے 
عشرتوں کے متلاشی غم سے کیوں گریزاں ہے 
تیرگی کے پردے میں روشنی کا ساماں ہے 
گیت ہیں جوانی ہے ابر ہے بہاریں ہیں 
مضطرب ادھر میں ہوں تو ادھر پریشاں ہے 
دھوپ ہو کہ بارش ہو تو ہے مونس و ہمدم 
مجھ پہ یہ ترا احساں اے غم فراواں ہے 
رند بخل ساقی پر کس قدر تھے کل برہم 
مے کدہ ہے آج اپنا اور تنگ داماں ہے 
اف دو رنگیٔ دنیا اف تضاد کا عالم 
کفر کے اجالے ہیں تیرگیٔ ایماں ہے 
بے نقاب دیکھا تھا خواب میں انہیں اک شب 
آج تک نگاہوں میں اے ضیاؔ چراغاں ہے 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *