Iztirab

Iztirab

حسینوں کے ستم کو مہربانی کون کہتا ہے

حسینوں کے ستم کو مہربانی کون کہتا ہے 
عداوت کو محبت کی نشانی کون کہتا ہے 
یہ ہے اک واقعی تفصیل میری آپ بیتی کی 
بیان درد دل کو اک کہانی کون کہتا ہے 
یہاں ہر دم نئے جلوے یہاں ہر دم نئے منظر 
یہ دنیا ہے نئی اس کو پرانی کون کہتا ہے 
تجھے جس کا نشہ ہر دم لیے پھرتا ہے جنت میں 
بتا اے شیخ اس کوثر کو پانی کون کہتا ہے 
طریقہ یہ بھی ہے اک امتحان جذبۂ دل کا 
تمہاری بے رخی کو بد گمانی کون کہتا ہے 
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت کا 
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے 
فنا ہو کر بھی حاصل ہے وہی رنگ بقا اس کا 
ہماری ہستئ فانی کو فانی کون کہتا ہے 
ہزاروں رنج اس میں عرشؔ لاکھوں کلفتیں اس میں 
محبت کو سرود زندگانی کون کہتا ہے 

عرش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *