Iztirab

Iztirab

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
ہر چند ناز حسن پہ غالب نہ آ سکے
کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم
صبح ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم
اے عرصہ طلب کے سبک سیر قافلو
ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم
لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی
آرائش کتاب بشر کر رہے ہیں ہم
تخمینہ حوادث طوفاں کے ساتھ ساتھ
بطن صدف میں وزن گہر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *