Iztirab

Iztirab

خاک دل

لکھنؤ میرے وطن میرے چمن زار وطن 
تیرے گہوارۂ آغوش میں اے جان بہار 
اپنی دنیائے حسیں دفن کیے جاتا ہوں 
تو نے جس دل کو دھڑکنے کی ادا بخشی تھی 
آج وہ دل بھی یہیں دفن کیے جاتا ہوں 
دفن ہے دیکھ مرا عہد بہاراں تجھ میں 
دفن ہے دیکھ مری روح گلستاں تجھ میں 
میری گل پوش جواں سال امنگوں کا سہاگ 
میری شاداب تمنا کے مہکتے ہوئے خواب 
میری بیدار جوانی کے فروزاں مہ و سال 
میری شاموں کی ملاحت مری صبحوں کا جمال 
میری محفل کا فسانہ مری خلوت کا فسوں 
میری دیوانگئ شوق مرا ناز جنوں 
میرے مرنے کا سلیقہ مرے جینے کا شعور 
میرا ناموس وفا میری محبت کا غرور 
میری نبضوں کا ترنم مرے نغموں کی پکار 
میرے شعروں کی سجاوٹ مرے گیتوں کا سنگار 
لکھنؤ اپنا جہاں سونپ چلا ہوں تجھ کو 
اپنا ہر خواب جواں سونپ چلا ہوں تجھ کو 
اپنا سرمایۂ جاں سونپ چلا ہوں تجھ کو 
لکھنؤ میرے وطن میرے چمن زار وطن 
یہ مرے پیار کا مدفن ہی نہیں ہے تنہا 
دفن ہیں اس میں محبت کے خزانے کتنے 
ایک عنوان میں مضمر ہیں فسانے کتنے 
اک بہن اپنی رفاقت کی قسم کھائے ہوئے 
ایک ماں مر کے بھی سینے میں لیے ماں کا گداز 
اپنے بچوں کے لڑکپن کو کلیجے سے لگائے 
اپنے کھلتے ہوئے معصوم شگوفوں کے لیے 
بند آنکھوں میں بہاروں کے جواں خواب بسائے 
یہ مرے پیار کا مدفن ہی نہیں ہے تنہا 
ایک ساتھی بھی تہ خاک یہاں سوتی ہے 
عرصۂ دہر کی بے رحم کشاکش کا شکار 
جان دے کر بھی زمانے سے نہ مانے ہوئے ہار 
اپنے تیور میں وہی عزم جواں سال لیے 
یہ مرے پیار کا مدفن ہی نہیں ہے تنہا 
دیکھ اک شمع سر راہ گزر چلتی ہے 
جگمگاتا ہے اگر کوئی نشان منزل 
زندگی اور بھی کچھ تیز قدم چلتی ہے 
لکھنؤ میرے وطن مرے چمن زار وطن 
دیکھ اس خواب گہ ناز پہ کل موج صبا 
لے کے نو روز بہاراں کی خبر آئے گی 
سرخ پھولوں کا بڑے ناز سے گوندھے ہوئے ہار 
کل اسی خاک پہ گل رنگ سحر آئے گی 
کل اسی خاک کے ذروں میں سما جائے گا رنگ 
کل مرے پیار کی تصویر ابھر آئے گی 
اے مری روح چمن خاک لحد سے تیری 
آج بھی مجھ کو ترے پیار کی بو آتی ہے 
زخم سینے کے مہکتے ہیں تری خوشبو سے 
وہ مہک ہے کہ مری سانس گھٹی جاتی ہے 
مجھ سے کیا بات بنائے گی زمانے کی جفا 
موت خود آنکھ ملاتے ہوئے شرماتی ہے 
میں اور ان آنکھوں سے دیکھوں تجھے پیوند زمیں 
اس قدر ظلم نہیں ہائے نہیں ہائے نہیں 
کوئی اے کاش بجھا دے مری آنکھوں کے دیے 
چھین لے مجھ سے کوئی کاش نگاہیں میری 
اے مری شمع وفا اے مری منزل کے چراغ 
آج تاریک ہوئی جاتی ہیں راہیں میری 
تجھ کو روؤں بھی تو کیا روؤں کہ ان آنکھوں میں 
اشک پتھر کی طرح جم سے گئے ہیں میرے 
زندگی عرصہ گہ جہد مسلسل ہی سہی 
ایک لمحے کو قدم تھم سے گئے ہیں میرے 
پھر بھی اس عرصہ گہ جہد مسلسل سے مجھے 
کوئی آواز پہ آواز دئیے جاتا ہے 
آج سوتا ہی تجھے چھوڑ کے جانا ہوگا 
ناز یہ بھی غم دوراں کا اٹھانا ہوگا 
زندگی دیکھ مجھے حکم سفر دیتی ہے 
اک دل شعلہ بجاں ساتھ لیے جاتا ہوں 
ہر قدم تو نے کبھی عزم جواں بخشا تھا
میں وہی عزم جواں ساتھ لیے جاتا ہوں 
چوم کر آج تری خاک لحد کے ذرے 
ان گنت پھول محبت کے چڑھاتا جاؤں 
جانے اس سمت کبھی میرا گزر ہو کہ نہ ہو 
آخری بار گلے تجھ کو لگاتا جاؤں 
لکھنؤ میرے وطن میرے چمن زار وطن 
دیکھ اس خاک کو آنکھوں میں بسا کر رکھنا 
اس امانت کو کلیجے سے لگا کر رکھنا 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *