Iztirab

Iztirab

خدا کی مار وہ ایام شور وشر گزرے

خدا کی مار وہ ایام شور و شر گزرے
وہ جن سوار تھا سر پر کہ سر سے در گزرے
حلال بھی مرے حق میں حرام واویلا
نگاہ شوق سے کیا کیا گل و ثمر گزرے
جو سبز باغ تمنا پہ پھیر دے پانی
خدا بچائے ہم ایسی نظر سے در گزرے
نکالے عیب میں سو حسن حسن میں سو عیب
خیال ہی تو ہے جیسا بندھے جدھر گزرے
زمین پاؤں تلے سے نکل گئی تو کیا
ہم اپنی دھن میں زمانے سے بے خبر گزرے
مزا نہ پوچھیے واللہ دل دکھانے کا
کہاں کا خوف خدا ٹھان لی تو کر گزرے
ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں
یگانہؔ حد سے گزرنا نہ تھا مگر گزرے

یگانہ چنگیزی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *