Iztirab

Iztirab

خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ

خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ 
دلوں کے باغ زخموں کے گلستانوں میں آ جاؤ 
یہ دامان و گریباں اب سلامت رہ نہیں سکتے 
ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ہے دیوانوں میں آ جاؤ 
ستم کی تیغ خود دست ستم کو کاٹ دیتی ہے 
ستم رانو تم اب اپنے عزا خانوں میں آ جاؤ 
یہ کب تک سرد لاشیں بے حسی کے برف خانوں میں 
چراغ درد سے روشن شبستانوں میں آ جاؤ 
یہ کب تک سیم و زر کے جنگلوں میں مشق خونخواری 
یہ انسانوں کی بستی ہے اب انسانوں میں آ جاؤ 
کبھی شبنم کا قطرہ بن کے چمکو لالہ و گل پر 
کبھی دریاؤں کی صورت بیابانوں میں آ جاؤ 
ہوا ہے سخت اب اشکوں کے پرچم اڑ نہیں سکتے 
لہو کے سرخ پرچم لے کے میدانوں میں آ جاؤ 
جراحت خانۂ دل ہے تلاش رنگ و نکہت میں 
کہاں ہو اے گلستانو گریبانوں میں آ جاؤ 
زمانہ کر رہا ہے اہتمام جشن بے داری 
گریباں چاک کر کے شعلہ دامانوں میں آ جاؤ

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *