Iztirab

Iztirab

خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے

خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے 
کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے 
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے 
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے 
انا کیا عجز کو گرداب سمجھو 
بڑا گہرا سمندر ذات کا ہے 
خدا اشعار رسمی سے بچائے 
یہ قتل عام سچی بات کا ہے 
تپش کتنی ہے ماں کے آنسوؤں میں 
یہ پانی کون سی برسات کا ہے 
مجھے بہتر ہے کچی قبر اپنی 
کسی گنبد سے جو خیرات کا ہے 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *