Iztirab

Iztirab

خمستانِ ازل کا ساقی

پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دور جام اس کا 
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا 
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی 
دوئی کے نقش سب جھوٹے ہیں سچا ایک نام اس کا 
ہر اک ذرہ فضا کا داستان اس کی سناتا ہے 
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا 
میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں 
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا 
مری افتاد کی بھی میرے حق میں اس کی رحمت تھی 
کہ گرتے گرتے بھی میں نے لیا دامن ہے تھام اس کا 
وہ خود بھی بے نشاں ہے زخم بھی ہیں بے نشاں اس کے 
دیا ہے اس نے جو چرکا نہیں ہے التیام اس کا 
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے اب ڈھب گرفت اس کی 
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا 

ظفر علی خاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *