Iztirab

Iztirab

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے 
نیند اس کی ہے جو اڑا لے جائے 
زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے 
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے 
تیغ اس کی ہے شاخ گل اس کی 
جو اسے کھینچتا ہوا لے جائے 
اس سے کہنا کہ کیا نہیں اس پاس 
پھر بھی درویش کی دعا لے جائے 
زخم ہو تو کوئی دہائی دے 
تیر ہو تو کوئی اٹھا لے جائے 
قرض ہو تو کوئی ادا کر دے 
ہاتھ ہو تو کوئی چھڑا لے جائے 
لو دیے کی نگاہ میں رکھنا 
جانے کس سمت راستا لے جائے 
دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے 
ان بتوں کو کہاں خدا لے جائے 
کب نہ جانے ابل پڑے چشمہ 
کب یہ صحرا مجھے بہا لے جائے 
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے 
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے 
میں غریب الدیار میرا کیا 
موج لے جائے یا ہوا لے جائے 
خاک ہونا ہی جب مقدر ہے 
اب جہاں بخت نارسا لے جائے 

رسا چغتائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *