Iztirab

Iztirab

خواب دیکھے تھے سہانے کتنے

خواب دیکھے تھے سہانے کتنے
جاگ اٹھے درد پرانے کتنے
ایک جلوے کی فراوانی سے
بن گئے آئنہ خانے کتنے
چال سے حال کی لاتے ہیں خبر
لوگ ہوتے ہیں سیانے کتنے
بوجھ کر بھی نہ بتاؤں تجھ کو
تیری مٹھی میں ہیں دانے کتنے
بے ارادہ جو ہوئے اشک رواں
لٹ گئے غم کے خزانے کتنے
تم ذرا روٹھ کے دیکھو تو سہی
لوگ آتے ہیں منانے کتنے
ہم نے صرف ایک تبسم کے لیے
زخم کھائے ہیں نہ جانے کتنے
ڈوب مرنے کا نہیں کوئی جواز
زندہ رہنے کے بہانے کتنے
سرد مہری سے تری محفل میں
جل بجھے لوگ نہ جانے کتنے
یاد ماضی سے سمٹ آئے ہیں
ایک لمحے میں زمانے کتنے
اک نظر دیکھا تھا اس نے ساحرؔ
گڑھ لیے دل نے فسانے کتنے
ساحر  ہوشیارپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *