خودی کیا اور خودی کا مدعا کیا جو بندہ ہے بنے گا وہ خدا کیا کسی خودبیں سے ہوتا آشنا کیا تجھے دیکھا تھا دنیا دیکھتا کیا قیامت خیز جس کی ابتدا ہو پھر اس کی انتہا کا پوچھنا کیا ترے جلووں نے فرصت ہی نہیں دی میں نیرنگ زمانہ دیکھتا کیا تجلی راز ہے صحرائے ہستی حریم حسن کا پردہ اٹھا کیا نظر میں رکھ تو اپنی حد امکاں دعا کو دیکھ تاثیر دعا کیا کرم گستر فقیر بے نوا ہوں فقیر بے نوا کا مدعا کیا تکلف بر طرف میں صاف کہہ دوں وفا کیا اور پیمان وفا کیا حقیقت کھل گئی اے رازؔ آخر بھرم تھا قادری صاحب کو کیا کیا
راز چاندپوری