Iztirab

Iztirab

خودی کیا اور خودی کا مدعا کیا

خودی کیا اور خودی کا مدعا کیا
جو بندہ ہے بنے گا وہ خدا کیا
کسی خودبیں سے ہوتا آشنا کیا
تجھے دیکھا تھا دنیا دیکھتا کیا
قیامت خیز جس کی ابتدا ہو
پھر اس کی انتہا کا پوچھنا کیا
ترے جلووں نے فرصت ہی نہیں دی
میں نیرنگ زمانہ دیکھتا کیا
تجلی راز ہے صحرائے ہستی
حریم حسن کا پردہ اٹھا کیا
نظر میں رکھ تو اپنی حد امکاں
دعا کو دیکھ تاثیر دعا کیا
کرم گستر فقیر بے نوا ہوں
فقیر بے نوا کا مدعا کیا
تکلف بر طرف میں صاف کہہ دوں
وفا کیا اور پیمان وفا کیا
حقیقت کھل گئی اے رازؔ آخر
بھرم تھا قادری صاحب کو کیا کیا

راز چاندپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *