خود کو شرمندہ بیداد کیا ہے کس نے آج بھولے سے مجھے یاد کیا ہے کس نے کس نے پہلو میں یہ آہستہ سے چٹکی لی ہے دل کو مجبور بہ فریاد کیا ہے کس نے زندگی کو تو سمجھتا ہوں میں اک جور عظیم کیا خبر یہ ستم ایجاد کیا ہے کس نے ہے جو احسان تو کچھ حسرت جاوید کا ہے ورنہ پاس دل ناشاد کیا ہے کس نے داد ہر سمت سے ملتی ہے منورؔ کو بجا اتنا اونچا سر اجداد کیا ہے کس نے
منور لکھنوی