Iztirab

Iztirab

خون کا رنگ

کیوں چلی کیسے چلی الٹی زمانے کی ہوا کیا لہو ایک نہیں
ایک بھائی نے کسی بھائی کا گھر لوٹ لیا
قتل ممتا کو کیا نور نظر لوٹ لیا
چھین لی کانپتے ہونٹوں سے جوانی کی دعا کیا لہو ایک نہیں
آدمیت کو نمائش میں سجا رکھا ہے
دھرم کو جیسے کتابوں میں چھپا رکھا ہے
جیسے احساس محبت ہے قیامت کی بلا کیا لہو ایک نہیں
عظمت امن کا پیغام چلے تھے لے کر
بادۂ صبر کا بھی جام چلے تھے لے کر
شیشۂ ضبط تو نازک تھا مگر ٹوٹ گیا کیا لہو ایک نہیں
ساتھ دیوانے چلے ایک ہی منزل کے لیے
ایک کشتی تھی رواں ایک ہی ساحل کے لیے
مقصد زیست مگر جا کے کہیں ڈوب گیا کیا لہو ایک نہیں
اپنے ہی خون کی برکھا میں نہائے ہے سماج
کوئی پوچھے تو دہکتے ہوئے شعلوں کا مزاج
آگ یہ کس نے لگائی یہ مکاں کس کا جلا کیا لہو ایک نہیں
اپنی لغزش پہ ندامت کا سہارا دے دے
آج پھر امن و محبت کا کنارا دے دے
کیا ہوا کیسے ہوا یار مرے بھول بھی جا کیا لہو ایک نہیں
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *