Iztirab

Iztirab

دارالمکافات

ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ اُور طرح کی بستی ہے 
جُو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اُور سستوں کو یہ سستی ہے 
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے 
گر مست کرے تو مستی ہے اُور پست کرے تو پستی ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو اُور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے 
جُو پان کھلا دے پان ملے جُو روٹی دے تو نان ملے 
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے 
جُو جیسا جس کہ ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو اُور کسی کی جاں بخشے تو اس کی بھی حق جان رکھے 
جُو اور کسی کی آن رکھے تُو اُس کی بھی حق آن رکھے 
جُو یاں کا رہنے والا ہے یہ دِل میں اپنے جان رکھے 
یہ ترت پھرت کا نقشہ ہے اس نقشے کو پہچان رکھے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی پار اترنی ہے 
جُو غرق کرے پھر اس کو بھی ڈبکوں ڈبکوں کرنی ہے 
شمشیر تبر بندوق سناں اُور نشتر تیر نہرنی ہے 
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو اوپر اونچا بول کرے تُو اس کا بول بھی بالا ہے 
اُور دے پٹکے تُو اس کو بھی کوئی اُور پٹکنے والا ہے 
بے ظلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے 
اس ظالم کہ بھی لوہو کا پھر بہتا ندی نالا ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو مصری اُور کہ منہ میں دے پھر وُہ بھی شکر کھاتا ہے 
جُو اُور تئیں اب ٹکر دے پھر وُہ بھی ٹکر کھاتا ہے 
جُو اُور کو ڈالے چکر میں پھر وُہ بھی چکر کھاتا ہے 
جُو اُور کو ٹھوکر مار چلے پھر وُہ بھی ٹھوکر کھاتا ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو اُور کسی کو ناحق میں کوئی جھوٹی بات لگاتا ہے 
اُور کوئی غریب اُور بیچارہ حق نا حق میں لٹ جاتا ہے 
وہ آپ بھی لوٹا جاتا ہے ، اُور لاٹھی پاٹھی کھاتا ہے 
جُو جیسا جیسا کرتا ہے ، پھر ویسا ویسا پاتا ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
جُو اُور کی پگڑی لے بھاگے اس کا بھی اُور اچکا ہے 
جُو اُور پہ چوکی بٹھلاوے اِس پر بھی دھونس دھڑکا ہے 
یاں پشتی میں تُو پشتی ہے اُور دھکے میں یاں دھکا ہے 
کیا زور مزے کا جمگھٹ ہے کیا زور یہ بھیڑ بھڑکا ہے 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
اِس ہاتھ کرو اِس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 
ہے کھٹکا اِس کہ ہاتھ لگا جُو اُور کسی کو دے کھٹکا 
اُور غیب سے جھٹکا کھاتا ہے جُو اُور کسی کہ دے جھٹکا 
چیرے کہ بیچ میں چیرا ہے اُور پٹکے بیچ جُو ہے پٹکا 
کیا کہیے اُور نظیرؔ آگے ہے زور تماشا جھٹ پٹکا 
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اُور عدل پرستی ہے 
.اس ہاتھ کرو اِس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے 

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *