دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے کیا بتاؤں زخم دل کیا کیا دعا دینے لگے وائے ناکامی کہاں سفاک نے روکا ہے ہاتھ زخم ہائے شوق جب کچھ کچھ مزا دینے لگے چارہ سازو مجھ سے رسوا جاں بلب بیمار کو زہر دینا چاہئے تھا تم دوا دینے لگے یاس و حرماں آہ سوزاں اشک خوں داغ جنوں حضرت عشق اور کیا اس کے سوا دینے لگے آج ہو شاید کسی کو آتش غم کی خبر شکر ہے اب استخواں بوئے وفا دینے لگے کیا مخالف ہو گئی ہم سے زمانے کی ہوا یاسؔ دیکھو حضرت دل بھی دغا دینے لگے
یگانہ چنگیزی