Iztirab

Iztirab

درد آئے گا دبے پاوں

اور کچھ دیر میں جب  پھر مرے تنہا دل کو 
فکر آ لے گی کے تنہائی کا کیا چارہ کرے 
درد آئے گا دبے پاوں لیے سرخ چراغ 
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے 
شعلہ درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا 
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا 
حلقہ زلف کہیں گوشہ رخسار کہیں 
ہجر کا دشت کہیں گلشن دیدار کہیں 
لطف کی بات کہیں پیار کا اقرار کہیں 
دل سے پھر ہوگی مری بات کے اے دل اے دل 
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا 
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا چلا جائے گا 
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا 
مشتعل ہو کہ ابھی اٹھیں گے وحشی سائے 
یہ چلا جائے گا رہ جائیں گے باقی سائے 
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا 
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل 
دشمن جاں ہیں سبھی سارے کہ سارے قاتل 
یہ کڑی رات بھی یہ سائے بھی تنہائی بھی 
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل 
لاو سلگاؤ کوئی جوش غضب کا انگار 
طیش کی آتش جرار کہاں ہے لاو 
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ 
جس میں گرمی بھی ہے حرکت بھی توانائی بھی 
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر 
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کہ ادھر 
ان کو شعلوں کہ رجز اپنا پتا تو دیں گے 
خیر ہم تک وہ نہ پہنچے بھی صدا تو دیں گے 
.دور کتنی ہے ابھی صبح بتا تو دیں گے

فیض احمد فیض 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *