درود پڑھتے ہیں سنگریزے ہے تیرا حسن مقال کیسا
کیا وہ شق القمر فلک پر کمال ہے اور کمال کیسا
مئے محبت کے چند قطروں میں کیا بہک جاؤں گا میں توبہ
کہ بادہ مست ازل ہوں ساقی مری طرف یہ خیال کیسا
ازل کے دن کی کھنچی ہوئی ہو خدا کی تیار کی ہوئی ہو
سرور اس کا رہے ابد تک خمار کیسا زوال کیسا
لبالب اے ساقی عرب دے مئے طرب دے مئے طرب دے
مرا تو یہ ہے کہ بے طلب دے سخی کے در پر سوال کیسا
خدا کا محبوب خود محمد حجاز کا چاند رحمت حق
ملا ہے مکے کے سنگریزوں سے آمنہ تجھ کو لال کیسا
حبیب حق مخبر حقیقت رسول خاتم امین عصری
جمال کیسا مقال کیسا کمال کیسا جلال کیسا
رئیسؔ آئیں گے میرے آقا ضرور مرقد میں وقت پرسش
وفور جذبات کی بدولت یقیں ہے دل کو خیال کیسا
رئیس امروہوی