Iztirab

Iztirab

دریا کے پاس کوئی کنارہ نہیں رہا

دریا کے پاس کوئی کنارہ نہیں رہا 
قسمت کا ساتھ میرے ستارہ نہیں رہا
اپنوں کا ایک ہجوم تھا ساحل پہ مستقل 
ڈوبتے تو تنکے کا بھی سہارا نہیں رہا
یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی
کچھ بھی تو میرے یار ہمارا نہیں رہا 
دامن میں چند یادیں ہیں گزرے دنوں کی بس
خوش بختیوں کا کوئی اشارہ نہیں رہا
پہلے تو ٹھیک تھا وہ مگر بگڑا اس طرح
جب میں نے کہہ دیا کہ گزارا نہیں رہا
تجھ کو بھلا کہ ہم بھی زمانے کے ہوگئے 
اب پاس اپنے کوئی بھی چارہ نہیں رہا
خیرات کی طرح سے محبت بھی مانگتے
.آسی کو یہ کبھی بھی گوارا نہیں رہا 

عاصمہ فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *