Iztirab

Iztirab

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو 
اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو 
روز جوں توں کہ ہوا شام تو پھر بہتر عذاب 
نظر آئی شب ہجراں کی سیاہی ہم کو 
ہم تو جانے کا ارادہ نہیں کرتے لیکن 
وہ کمر سوئے عدم کرتی ہے راہی ہم کو 
کیوں ترے چاہ زنخداں کا نہ نظارہ کریں 
جی سے بھاتا ہے بہت سبزۂ چاہی ہم کو 
دام بر دوش ہی مخلوق کیا خالق نے 
طاقت اڑنے کی نہ دی جوں پر ماہی ہم کو 
پردہ پڑتا جو نہیں اس سے خوش اندامی پر 
پیارا لگتا ہے ترا کرتۂ لاہی ہم کو 
عمر بھر شعر کہے ہم نے پہ تو نے اے عشق 
نہ تو حزنی ہی کیا اور نہ آہی ہم کو 
مصحفیؔ علم لغت سے ہے جنہیں آگاہی 
جانتے ہیں وہ ابو نصر فراہی ہم کو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *