Iztirab

Iztirab

در پیش شام غم ہے عدم کا سفر مجھے

در پیش شام غم ہے عدم کا سفر مجھے
اس تیرگی میں راہ ملے گی کدھر مجھے
اعجاز چشم ناز دکھا فتنہ گر مجھے
یعنی مٹا دیا ہے تو پیدا بھی کر مجھے
مجبور راز کہنے پہ ہمدم نہ کر مجھے
دار و رسن ہیں سامنے حق بات پر مجھے
ساقی ہوں رند خاص ملے تیز تر مجھے
مے خانہ سب جہاں کو شراب نظر مجھے
تعبیر اس کی کیا ہے بتا چارہ گر مجھے
دیکھا ہے خواب میں نہ ملے گی سحر مجھے
کھو دے ملال ہجر کا چاہے جدھر مجھے
اٹھی تو ڈھونڈ لے گی کسی کی نظر مجھے
وہ مسکرا رہے ہیں جدھر دیکھتا ہوں میں
کیسا دیا گیا ہے فریب نظر مجھے
دھوکے میں تیرے عہد محبت کے آ گیا
معلوم یہ حدیث ہوئی معتبر مجھے
دیوانے ہو گئے ہیں مرے ساتھ اقربا
سمجھا رہا ہے عشق میں سب گھر کا گھر مجھے
وہ مست کیف ناز ہیں میں بے خود نیاز
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
صیاد بھی دیا تو مقدر سے بد گماں
بدلے کئی قفس جو ملے چار پر مجھے
کچھ ان کی تیغ کے بھی بڑھانے تھے حوصلے
کچھ خود بھی بار دوش تھا الفت میں سر مجھے
اک دن تو آ کے سامنے جلوے بکھیر دو
میں یاد کیا کروں گا ملی تھی نظر مجھے
ہو کر اسیر یوں مرے فطرت بدل گئی
جیسے کبھی ملے ہی نہ تھے بال و پر مجھے
اک برق تھی جو روح پہ لہرا کے گر پڑی
اب تک ہے یاد آپ کی پہلی نظر مجھے
مایوس ہو چلا ہے مرا ذوق جستجو
کچھ تو پتا بتاؤ ملو گے کدھر مجھے
مجھ کو کمال بے ہنری ابرؔ ہے بہت
یعنی نہیں ضرورت عرض ہنر مجھے

ابر احسنی گنوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *