دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے کیا یُوں ہی کوئی حسرت آغوش میں مر جائے قبر اس کی پہ لازم ہے خم مے کا چڑھانا جُو مست کے عشق بت مے نوش میں مر جائے ہے طرفہ اذیت کوئی کس طرح خدایا یاد صنم وعدہ فراموش میں مر جائے سرگوشی کی رخصت نہ کبھی غیر کو دینا گر وُہ ہوس زلف و بنا گوش میں مر جائے گر غنچۂ محجوب تیری وضع کو دیکھے انداز حیائے لب خاموش میں مر جائے اللہ رے برقعہ تیرا اُور اِس کہ یہ روزن دیکھے جُو چھپا یُوں تُجھے روپوش میں مر جائے کیا فائدہ پھولوں کی چھڑی اس پہ لگانا اے گُل جُو تیری ایک ہی پاپوش میں مر جائے یارب نہ وُہ دِن اس کہ تُو عاشق کو دکھانا معشوق کہ آتے ہی جُو آغوش میں مر جائے آتا ہے مُجھے مصحفیؔ دِل اپنے پہ رونا .افسوس ہے یوں غش سے وُہ آ ہوش میں مر جائے
مصحفی غلام ہمدانی