دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں ویران ہیں محلے سُنسان گھر پڑے ہیں جب دیکھتا ہوں ان کو تب تا کمر پڑے ہیں یہ بال میرے جی کہ پیچھے مگر پڑے ہیں عزت یہ پیادگی کی کم ہے کے گھوڑے والے گھوڑے سے دیکھتے ہی مُجھ کو اتر پڑے ہیں دیکھا تُو اس چمن میں باد خزاں کک ہاتھوں اکھڑے ہوئے زمیں سے کیا کیا شجر پڑے ہیں قریات ہند کا اب یہ رنگ ہے کے کوسوں جاوے کوئی جدھر کو اجڑے نگر پڑے ہیں رویا ہے اس چمن میں کون آ کہ اے صبَا جو ہر نخل گُل کہ نیچے لخت جگر پڑے ہیں بگڑا کیے ہیں ہم بھی اس نازنیں سے ہر دم کام اپنے رفتہ رفتہ یوہیں سنور پڑے ہیں ہیں جان و دِل کہ خواہاں کیا سر کہ بال اس کہ جُو کچھ اِدھر پڑے ہیں اُور کچھ اُدھر پڑے ہیں مقتل میں یہ تماشا اس کہ نیا میں دیکھا ایدھر کو دھڑ پڑے ہیں اودھر کو سر پڑے ہیں بلبل کا باغباں سے کیا اب نشان پُوچھوں بیروں در چمن کہ یک مشت پر پڑے ہیں شبنم گلاب پاشی غنچے کی جلد اٹھا لا گُل بستر غشی پر سب بے خبر پڑے ہیں اے مصحفیؔ میں ان کو اب چھوڑتا ہوں کوئی وُہ بعد مدتوں کہ مری نظر پڑے ہیں
غلام ہمدانی مصحفی