Iztirab

Iztirab

دل بدلی

چلتے چلتے دفعتاً پٹری بدلنے کا چلن
تھا سیاست کے قلابازوں کا یک مشہور فن
فائدہ ہوتا تھا وقتی طور پر اس کھیل میں
گو سکا حضرات کہتے تھے اسے بازار پن
اہل شعرستان نے بھی اب اسے اپنا لیا
کار آمد دیکھ کر یہ نسخہ آہن شکن
ہو رہا ہے اس قدر مقبول یہ نسخہ کہ اب
دل بدلتے رہتے ہیں دن رات ارباب سخن
نت نیا بہروپ لازم ہے پئے اظہار ذات
جب نظر کے سامنے ہو فن برائے مکر و فن
وہ زمانہ جب کہ بزم شعر تھی اک رزم گاہ
چھوڑ دی تھی ہر نئے شاعر نے رفتار کہن
گھولتے رہتے تھے وہ حضرات جام شعر میں
نغمہ بلبل کے بدلے شورش دار و رسن
ہوٹلوں میں بیٹھ کر ہوتا تھا ذکر انقلاب
اپنے سر سے باندھے پھرتے تھے تخیل میں کفن
ان میں کچھ لیڈر صفت تھے اور کچھ والنٹیر
جھنڈ میں سرخاب کے ہوں جس طرح زاغ و زغن
نعرہ بازی میں اگر ہوتے تھے لیڈر پاؤ سیر
ان کے ہر والنٹیر کا وزن ہوتا ڈیڑھ من
رفتہ رفتہ شور غوغائی سخن کا جب تھما
لگ گیا جب ماہ نخشب میں حوادث کا گہن
آ گئے کچھ اور کرتب باز بزم شعر میں
اک ذرا سا جانتے تھے جو نظر بندی کا فن
سونگھ کر موسم کی بو اور رخ ہوا کا دیکھ کر
کیچلی بدلی ہر اک والنٹیر نے دفعتاً
صبح دم دیکھا تو ٹیڈی سوٹ میں ملبوس ہیں
پھینک کر چپکے سے اپنا انقلابی پیرہن
سر کے بالوں کی سفیدی ہو گئی غرق خضاب
تہ بہ تہ غازہ لگا کر دور کی رخ کی شکن
شاعری کی عمر تھی گو بیس یا پچیس سال
لیکن اپنے فن میں وہ بالقصد لائے بال پن
کر دیا بہر صدارت پیش اپنے آپ کو
جب بنائی چند نو مشقوں نے کوئی انجمن
اس لیے گھس پیٹھ کرتے یہ سب والنٹیر
بن گئے اب خام ذہنوں کے امام فکر و فن
ان کا مقصد ہے اگر کچھ تو حصول منفعت
انقلابی شاعری ہو یا معماتی سخن
رضا نقوی واہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *